On 10/12/11, CoooL <asad.coool786@gmail.com> wrote:
> **
>
>
>
>
>
> بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
> السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
>
> ye mail main dobara share kar raha hoon...aissi mail jis ko parh kar main
> apnay ansoo ko nai rook saka ham sara din itnay itnay masg kartay hain
> rehtay hain aur bila waja ki poetry aur pata nai kaya kaya parhtay hain app
> se guzarish hai sirf 5 mint day dain...
>
>
> Phr Yaad-e-Khuda Se Ghafil Iss Duniya Ki Hawass Mein
>
> Iss Mukhtasir Si Zindgi Ka Ik Aor Din Beet Gaya...!!!
>
>
> *
> ------------------------------
> *
> *بھاری سجدہ
> (2)<http://www.hajisahb.com/blog/2011/10/09/%D8%A8%DA%BE%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%D8%B3%D8%AC%D8%AF%DB%81-%DB%B2-2/>
> *
>
>
> *
> *
> *ڈاکٹر جِفری لانج (Dr. Jeffery Lang) امریکہ کی مشہور ترین یونیورسٹیوں میں
> سے ایک کنساس یونیورسٹی میں ریاضیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ **۱ُ**ن کے
> مذہبی سفر کا آغاز تو **۳۰** جنوری **۱۹۵۴** کو ہی ہو گیا تھا جب وہ برج پورٹ
> کے ایک رومن کیتھولک خاندان میں پیدا ہوئے۔ اپنی زندگی کے ابتدائی اٹھارہ
> سالوں میں اپنے مذہبی عقیدے سے وابستہ سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے عقیدہ
> میں پختگی کی بجائے اپنے مذہب کے خدا اور عیسائیت سے متعلقہ سوالوں کے دیئے
> ہوئے غیر منطقی جوابوں میں الجھتے چلے گئے۔ اپنے اسلام لانے سے متعلق کہانی
> کا ذکر کرتے ہوئے لانج کہتا ہے **۱۹۶۰** کی دہائی کے اواخر اور **۱۹۷۰** کی
> دہائی کے ابتدائی زمانے میں دوسرے ہزاروں بچوں کی طرح اُس کے ذہن میں بھی
> مذہب، معاشرہ اور سیاست کے بارے میں ویسے ہی سوال اُٹھتے تھے۔ لانج کہتا ہے کہ
> مجھے کیتھولک چرچ کے ساتھ ساتھ اُن مافوق الفطرت اقدار جنکا احترام اُن کے
> بارے میں زبان کھولنے کی بھی اجازت نہیں دیتا ، سے بغاوت سی ہو چلی تھی۔***
> *جیسے ہی لانج اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچا وہ خدا کے وجود سے انکاری ایک مکمل
> دہریئے کا روپ دھار چکا تھا۔ وہ پورے اعتماد کے ساتھ کہا کرتا تھا کہ اگر کسی
> خدا کا وجود ہے، اور وہ خدا رحیم و کریم بھی ہے تو پھر کیوں انسانیت کرہ ارض
> پر ان مصائب اور عذابوں میں مبتلا ہے۔ کیوں وہ ہمیں سادگی کے ساتھ یہاں سے
> اُٹھا کر جنت میں منتقل نہیں کر دیتا؟ کیوں دکھوں اور مصیبتوں کو جھیلنے کیلئے
> اتنے انسان تخلیق کرتا جا رہا ہے؟ یہ تھے وہ سوال جو لانج کے ذہن میں اٹھا کرتے
> تھے۔لانج اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری اور پروفیسر شپ کے حصول تک ایک ملحد اور
> دہریہ ہی رہا۔*
> *سان فرانسسکو کی یونیورسٹی میں ریاضیات کے نوجوان پروفیسر کی حیثیت سے پڑھاتے
> ہوئے اُسکی ملاقات یونیورسٹی کے چند مسلمان طلباء سے ہوئی۔ اُس زمانے میں
> اُسے اپنا نظریہ بدلنا پڑا کہ کم از کم خدا ایک حقیقت ضرور ہے ۔ اوراتنی سی
> راہ دکھانے میں اُس کے انہی مسلمان طلباء اور دوستوں کا ہاتھ تھا جو اُس سے
> تعلیم حاصل کرتے تھے۔ لانج کہتا ہے ہم مذہب پر ڈھیروں باتیں کرتے، میرے کسی
> بھی سوال کے جواب میں وہ مجھے ایسا کافی اور شافی جواب دیتے کہ میرے دماغ پر
> چھائے ہوئے شکوک کے بادل چھٹتے جاتے۔*
> *اُسی زمانے میں ڈاکٹر جفری لانج کی ملاقات ایک سعودی نوجوان محمود قندیل سے
> ہوئی۔ یہ خوبرو نوجوان اپنی کلاس میں داخل ہونے کے پہلے دن ہی سب کی توجہ اپنی
> طرف مبذول کرا چکا تھا۔ ایک بار لانج نے اُس سے ایک طبی تحقیق کے بارے کوئی
> سوال کیا جس کا جواب محمود قندیل نے پورے اعتماد کے ساتھ شستہ انگریزی میں دیا
> ۔ بعد میں کوئی بھی ایسا شخص نا تھا جو محمود قندیل کو نا جانتا ہو، ایک عام
> آدمی سے لیکر پولیس کے سربراہ اور شہر کے میئر تک سب اُس سے واقف ہوچکے تھے۔
> وہ اپنے دوستوں اور اُستادوں کو اکٹھا کرتا اور کسی بھی جگہ نکل کھڑا ہوتا تھا۔
> محفلوں کو جگمگا دینا تو معمولی بات تھی وہ تو جنگل کو بھی منگل بنا دیتا تھا۔
> اُس کی بنائی ہوئی محفل میں خوشی اور مسرت چھوٹے الفاظ ٹھہرتے تھے ، بس ہر طرف
> قہقہے ہی قہقہے ہوتے تھے۔ اور ایک بار کسی ایسی ہی ایک محفل کے اختتام پر قندیل
> نے چپکے سے ڈاکٹر لانج کے ہاتھ میں قرآن مجید کا ایک نُسخہ اور اسلام کے بارے
> میں چند دوسری تعارفی کتابیں تھما دیں۔ اور یہیں سے لانج کی زندگی میں
> تبدیلی کا آغاز شروع ہوا۔*
> *لانج نے قرآن مجید کا مطالعہ اپنی ذاتی شوق سے شروع کیا۔ اس دوران وہ
> یونیورسٹی کے مسلمان طالبعلموں کو ایک ہال میں قائم مسجد کی طرف آتے جاتے بھی
> دیکھتا رہتا تھا۔ لانج کے گرد ایک غیر مرئی حصار بن رہا تھا اور وہ اس حصار
> کی لپیٹ میں آ رہا تھا۔ شروع میں لانج نے قرآن مجید کی پہلی دو سورتیں پڑھیں۔
> حقیقی معنوں میں ان دو سورتوں نے اُس کی زندگی پر اپنے اثر دکھانے شروع کر
> دیئے تھے۔*
> *لانج کہتا ہے کہ مصور کے اختیار میں ہوتا ہے تصویر کی آنکھوں کو کسی بھی طرف
> متوجہ دکھا دے، مگر ایسا کونسا مصنف ہے جو ایسی کتاب لکھے جس میں آپ کے ہر سوال
> کا جواب موجود ہو؟ میں قرآن کو پڑھتے ہوئے اس پر اعتراض اور اس کے کے بارے میں
> سوالات اُٹھایا کرتا تھا اور کچھ وقت کے بعد یا دوسرے دن قرآن پڑھتے ہوئے اُن
> سوالوں کے جواب اپنے سامنے پاتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ قرآن کا مصنف میرے ذہن
> کو پڑھ رہا ہے۔ میرے کسی بھی اعتراض کا جواب وہ اگلی سطروں میں ڈال دیتا تھا جو
> میں نے پڑھنی ہوتی تھیں۔ قرآن پڑھتے ہوئے میری ملاقات میری اپنی ذات اور میری
> اپنی ذات سے متعلقہ امور سے ہو رہی تھی۔*
> *ڈاکٹر لانج کہتا ہے کہ تم قرآن کو بے دھیانی سے نہیں پڑھ سکتے، ماسوائے اس کے
> کہ قرآن کو مکمل توجہ کے ساتھ پڑھو۔ قرآن کو پڑھتے ہوئے یا تو تمہیں خود
> سپردگی کے ساتھ ہار ماننا پڑے گی یا پھر اس سے بغاوت کرنا پڑے گی۔ قرآن اپنی
> پوری طاقت کے ساتھ تمہیں قائل کرتا ہے، تمہیں براہ راست جواب دیتا ہے، جوابات
> شخصی بھی ہو سکتے ہیں اور اجتماعی بھی، تُم سے بحث کرتا ہے، تم پر تنقید کرتا
> ہے، تمہیں شرم دلاتا ہے، تمہیں چیلنج کرتا ہے۔ شروع شروع میں تم جب اس کے خلاف
> ہوتے ہو تو ایک جنگ کا سا سماں بنتا ہے۔ ایسی جنگ جس میں ایک طرف تم ہو تو
> دوسری طرف قرآن ہے۔ جنگ گھمسان کی تو ضرور ہوتی ہے مگر۔۔۔۔ میری طرف سے جنگ تو
> ہمیشہ کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی۔ کیونکہ قرآن کا مصنف و خالق مجھے اسقدر
> جانتا تھا جتنا میں اپنے آپکو نہیں جانتا تھا۔*
> *جب ڈاکٹر جفری لانج سے سوال کیا جاتا کہ آخر تمہیں اس قرآن سے اتنی محبت کیسے
> ہوگئی جبکہ یہ ایک ایسی زبان میں لکھا ہوا ہے جس کے رموز سے بھی تم آشنا نہیں
> ہو؟ تو وہ یو ں جواب دیتا کہ شیر خوار بچہ کیوں اپنی ماں کی آواز سے راحت
> پاتا ہے جبکہ وہ نا ہی تو ماں کی زبان سمجھ سکتا ہے اور اُسے اپنے مُدعا سنا
> سکتا ہے! اس قرآن نے مجھے جو راحت پہنچائی ہے اور خاص کر ایسے وقت میں جب میں
> کسی پریشانی میں ہوتا ہوں، میں اُس راحت اور مُحبت کو الفاظوں میں بیان نہیں کر
> سکتا۔ *
> *جفری لانج نے اسلام قبول کرنے کے بعد دو کتابیں (Struggling to Surrender) اور
> (Even Angels ask) لکھیں ، اُسکی تیسری کتاب ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔ یہ
> کتابیں اُسکے اسلام کی طرف روحانی سفر کی روئیداد اور اُسکے گہرے فلسفے سے
> متعلق بتاتی ہیں۔ ڈاکٹر جفری لانج کا مشہور زمانہ مبلغ اسلام ڈاکٹر جیرالڈ
> ڈیرکس (المعروف ابو یحییٰ) سے بھی گہرا یارانہ ہے، حتیٰ کہ جفری نے اپنی کتابوں
> میں ڈاکٹر جیرالڈ ڈیرکس کے اسلام لانے کےواقعات بھی ذکر کیئے ہیں۔*
> *آخر الذکر کتاب کا عربی ترجمہ سعودی عرب کے بڑے اخبار میں شائع ہوتا رہاہے۔
> جس میں سے لیا ہوا درج ذیل اقتباس آپ کی توجہ کیلئے پیش خدمت ہے۔*
> * ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ جس دِن میں نے اِسلام قبول کیا، اِمام مسجد نے کلمہ
> پڑھاتے ہی میرے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی کتاب بھی تھما دی جس میں نماز پڑھنے کا
> طریقہ درج تھا۔ میں تو حیران تھا ہی مگر مجھے ساتھ لے کر مسجد جانے والے میرے
> شاگرد بھی کافی پریشان تھے۔ ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں مجھے تلقین کررہا تھا
> کہ مجھے کسی معاملے میں جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے، میں ہر کام کو مرحلہ وار
> کروں اور اپنے ذہن پر زیادہ دباؤ نہ ڈالوں اور اسلام کے شعار اور فرائض کو
> آہستہ آہستہ اپناؤں وغیرہ وغیرہ۔
> ان لوگوں کی پریشانیوں کو دیکھ دیکھ کر تو میں بھی اپنے آپ سے سوال کر رہا تھا
> کہ کیا نماز پڑھنا اتنا ہی مشکل کام ہے؟
> اپنے شاگردوں کی باتیں اَن سُنی کرتے ہوئے میں یہ طے کر چکا تھا کہ پانچ وقتی
> نمازوں کی ادائیگی کا اہتمام تو بغیر کسی تاخیر کے ہی کر دوں گا۔ اور اُس رات
> کو میں دیر گئے تک صوفے پر ہی ٹکا رہا، بلب کی مدھم روشنی میں کتاب میں دی گئی
> نماز کی حرکات و سکنات کے نقشوں کا نہ صرف مطالعہ کرتا رہا بلکہ ساتھ ساتھ اُن
> قرآنی آیات کو بھی یاد کرتا رہا جو مجھے نماز میں پڑھنا تھیں۔ بہت ساری آیات تو
> مجھے عربی میں ہی پڑھنا تھیں اِس لئے میں وہ سارے کلمات عربی میں ہی یاد کر رہا
> تھا مگر ساتھ ساتھ اُنکا انگریزی میں ترجمہ بھی دیکھ رہا تھا۔ کتاب کا کئی
> گھنٹے تک مطالعہ کر نے کے بعد میں اِتنا جان چکا تھا کہ نماز کا پہلا تجربہ
> کرنے کیلئے میرے پاس کافی معلومات آچکی ہیں۔ اُس وقت تک نصف رات بھی بیت چکی
> تھی مگر میں نے سوچا کہ سونے سے پہلے کیوں نہ عشاء کی نماز ادا کر لی جائے۔
> واش روم جا کر کتاب کے وہ صفحات جن پر وضوء کا طریقہ درج تھا کھول کر بیسن کے
> ایک طرف رکھی، اور میں نے مرحلہ وار اور بالترتیب وضوء کرنا شروع کیا۔ ایسا لگ
> رہا تھا جیسے کوئی باورچی ترکیب کتاب سے پڑھ کر نئی ڈش تیار کر رہا ہو۔ وضوء سے
> فراغت پر پانی کا نل بند کرکے واپس کمرے میں لوٹا تو پانی میرے اعضاء سے فرش پر
> ٹپک رہا تھا (کتاب میں تو یہی لکھا تھا کہ وضوء کے بعد جسم پر لگے پانی کو خود
> بخود خشک ہونے دینا مستحب عمل ہے)۔
> کمرے کے درمیان میں جا کر اپنے طور پر اخذ کی ہوئی قبلہ کی سمت میں منہ کر کے
> کھڑا ہو گیا۔ پیچھے مڑ کر تصدیق بھی کی کہ میرے فلیٹ کا صدر دروازہ اچھی طرح
> بندبھی تھا کہ نہیں۔ ایک بار پھر قبلہ رو ہو کر متوازی کھڑا ہو گیا۔ ایک گہری
> سانس لے کر اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا کر کانوں کے برابر لایا، اور کتاب میں درج
> شدہ طریقے کے مطابق آہستہ سے اللہ اکبر کہا۔
> مجھے اُمید تھی کہ میری حرکات و سکنات اور آوازوں کو سننے والا کوئی نہیں ہے تو
> پھر اتنی احتیاط اور آہستگی کس بات کی!! میں نے سوچا کیوں نا شرم اور جھجھک کو
> ایک طرف رکھ کر نماز والا یہ فرض ادا کر ہی لیا جائے ۔ کہ یکایک میری نظر سامنے
> والے پردے پر پڑی جو کھڑکی سے ہٹا ہوا تھا ۔ اگر کوئی ہمسایہ دیکھ لیتا تو کیا
> خیال کرتا یہ جان کر ہی میرا بُرا حال ہو گیا۔ نماز کیلئے جو کچھ کر چکا تھا
> اُس سب کو چھوڑ کر میں کھڑکی کی طرف لپکا، آس پاس نظر دوڑا کر ہر ممکن تسلی کی
> کہ کسی نے مجھے دیکھا تو نہیں، پھر پچھواڑے میں کھلنے والی میری اِس کھڑکی سے
> حدِ نظر ویرانی اور خالی پن کو دیکھنے کے بعد میں نے پردے برابر کیئے اور ایک
> بار پھر کمرے کے درمیان میں آ کھڑا ہوا۔
> اس مرتبہ پھر تسلی کی کہ میں کھڑا تو بالکل ویسے ہی سیدھا ہوں جس طرح کتاب میں
> لکھا اور کتاب میں بنے نقشہ پر دکھایا گیا تھا۔ ہاتھوں کو بلند کر کے کانوں کی
> لوؤں کو چھوتے ہوئے قدرے با اعتماد طریقے سے اللہ اکبر کہا۔ لیکن سورۃ الفاتحہ
> پڑھتے ہوئے پھر آواز آہستہ کرنا پڑی کہیں کوئی سُن نہ لے۔فاتحہ کے بعد ایک
> چھوٹی سی سورت بھی عربی زبان میں پڑھی۔ ایک بات کا تو مجھے آج تک یقین ہے کہ
> اُس رات اگر کوئی عرب باشندہ میری تلاوت سُن لیتا تو ہرگز یہ نہ سمجھ پاتا کہ
> جو کچھ میں نے پڑھا تھا وہ قرآن شریف تھا۔ اِس چھوٹی سورت کی تلاوت کے بعد ایک
> بار پھر میں نے آہستگی سے تکبیر کہی، کمر کو جھکاتے ہوئے ہاتھ گھٹنوں پر رکھے۔
> حالتِ رکوع میں بنی اپنی اِس حالت پر مجھے شرم اور خجالت سی ہو رہی تھی،میں آج
> تک کسی کے سامنے ایسے نہیں جھکا تھا۔ ہاں مگر خوشی اِس بات کی تھی کہ میں کمرے
> میں تنہا اور اکیلا تھا۔ رکوع میں کئ بار سُبحانَ رَبی العظیم کا فقرہ دہرایا۔
> رکوع سے سیدھا ہوتے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ پڑھا اور سیدھا کھڑے ہو کر ربنا و
> لک الحمد بھی کہا۔*
> *اِس سب کچھ کے بعد، اِس مرتبہ تکبیر کہتے ہوئے ایسا لگا کہ دِل ذرا اطمینان سا
> محسوس کر رہا ہے کیونکہ اللہ اکبر کا فقرہ پہلے کی نسبت زیادہ جلدی سے ادا کیا
> تھا اور الفاظ کی ادائیگی بھی مجھے بہتر محسوس ہوئی تھی۔ یہاں تک تو جو کچھ ہوا
> تھا وہ ٹھیک ہوا تھا مگر اب سجدے کا مرحلہ تھا، یہ سوچ کر ہی میں جہاں تھا وہاں
> ہی رُک گیا۔ میری نظریں اُس جگہ کو گھور رہی تھیں جدھر میں نے اپنا ماتھا جا کر
> ٹکانا تھا۔ میں نہ صرف کہ اپنے سارے اعضاء کے ساتھ زمین پر جا کر جھکوں گا بلکہ
> مجھے اپنا ماتھا بھی زمین پر ٹِکانا ہوگا؟ نہیں میں ایسا ہرگز نہیں کر سکتا،
> اپنے آپ کو زمین پر گرا دوں، یہ مجھ سے نہیں ہو پائے گا۔ اتنی ذلت کہ اپنی ناک
> زمین پر جا کر رکھوں! یہ تو ایسا لگ رہا تھا کہ غلام اپنے آقا کے سامنے جھکنے
> جا رہا ہے۔ دِل تو مان ہی نہیں رہا تھا مگر اب یہ بھی محسوس ہو رہا تھا کہ
> گھٹنے بھی اِس مشق کیلئے تیار نہیں تھے۔ اب تو مجھے تصور میں اپنے جاننے والوں
> اور دوستوں کے قہقہے بھی صاف سُنائی دے رہے تھے۔ وہ میری حرکتوں کو دیکھ دیکھ
> کر ہنس رہے تھے جبکہ میں اُن کے سامنے احمق بنا ہوا تھا۔ مجھے تو ایسا بھی لگ
> رہا تھا کہ وہ لوگ اب میرے لیئے ہمدردی اور مضحکہ پن کے ملے جلے جذبات کے ساتھ
> مجھے گھور رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ بیچارہ جیف سان فرانسسکو کے عرب لوگوں کے
> جادو کا شکار ہو گیا ہے اور میں اُن سے التجاء کر رہا تھا کہ مجھے اِس ذلت اور
> گراوٹ سے بچا لو ۔
> آخر میں نے ایک لمبا سانس لے کر اپنے آپ کو اِس کام کیلئے تیار کیا۔ تھوڑی سی
> ہچکچاہٹ کے ساتھ سر کو جاء نماز پر جھکا ہی دیا۔ ذہن سے خیالات کو ایک جھٹکا
> دیکر باہر کیا اور تین بار سُبحانَ ربی الاعلٰی کے کلمات ادا کیئے۔ سجدہ سے سر
> اُٹھا کر قاعدہ میں بیٹھا، ذہن کو قابو میں رکھتے ہوئے اپنی توجہ مکمل طور پر
> نماز کی طرف رکھی تاکہ یہ عمل جلد سے جلد طے پا جائے۔ اللہ اکبر کہہ کر دوبارہ
> سرکو زمیں پر جھکا دیا۔ اور جس وقت میری ناک زمین پر لگی ہوئی تھی اُس وقت میں
> نے بالکل مشینی انداز میں تین بار سُبحان ربی الاعلٰی بھی کہہ ڈالا۔ اب تو میں
> تہیہ کر چکا تھا کہ جو کُچھ بھی ہو جائے اِس کام کو ہر قیمت پر پورا کر کے ہی
> رہوں گا۔
> سجدوں سے فارغ ہو کر اللہ اکبر کہتے ہوئے دوبارہ کھڑا ہوا، ذہن کو نماز کی طرف
> متوجہ کیا تو پتہ چلا کہ ابھی تو نماز کے چار مراحل میں سے صرف ایک مرحلہ طے
> کیا ہے ابھی تین مراحل تو باقی ہیں۔ اِس سے پہلے کہ میں اپنی عزت، وقار اور
> مرتبہ سے مجبور ہو کر نماز کو درمیان میں چھوڑ دوں میں بچی ہوئی نماز کو مکمل
> کرنا چاہتا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ ہر مرحلے کے ساتھ نماز میں میری دلچسپی
> مزید کم ہوتی جا رہی تھی, آخری سجدہ میں تو میں کافی پُر سکون سا تھا، یہاں تک
> کہ تشہد اور پھر دائیں بائیں سلام پھیرنے کا معاملہ بھی طے پا گیا۔
> اچھے خاصے تھکا دینے والے کام سے فارغ ہو کر میں نے جاء نماز سے اُٹھنے میں
> کوئی جلدی نہیں دِکھائی، میں نے بیٹھے بیٹھے ہی نے آج کے اِس معرکے پر غور کرنا
> شروع کیا۔ مثبت بات تو کوئی نہ دِکھائی دی ہاں البتہ شرمندگی اور خجالت اپنی
> جگہ برقرار تھی۔ مجھے شدت کے ساتھ اِس بات کا احساس تھا کہ آج اِس نماز کی خاطر
> میں نے اپنے آپ کو رکوع و سجود میں جھکایا اور گرایا تھا۔ وہیں بیٹھے بیٹھے اور
> سر کو جھکائے میں نے دعا کی اے اللہ میرے تکبر اور جہالت کو معاف کر دے، بڑی
> دور کا سفر کر کے تیری طرف آیا ہوں اور ابھی بڑا لمبا راستہ طے کرنا باقی ہے۔
> اور شاید یہی وہ لمحہ تھا جب میرے اندر کچھ عجیب سا احساس پیدا ہوا، ایسا احساس
> جس کا مجھے پہلے کوئی تجربہ نہیں تھا ۔ اور یہی وجہ ہے کہ میں اُس احساس کو
> الفاظ میں بھی بیان نہیں کر سکتا۔ ایسا لگا جیسے سردی کی ایک ٹھٹھرا دینے والی
> لہر مجھ سے آ کر ٹکرائی ہے مگر ساتھ ہی دِل میں ایک روشنی کا نقطہ سا پھوٹتا
> ہوا بھی محسوس ہوا۔ یہ سب کچھ غیر متوقع سا تھا اِس لئے عجیب سا بھی لگ رہا
> تھا۔ مجھے یا دہے کہ میں نے سردی کی شدت سے کانپنا بھی شروع کر دیا تھا۔ جبکہ
> خارجی صورتحال قطعی مختلف تھی، تغیر صرف میرے جسم کے اندر رونما ہو رہا تھا جو
> میرے جذبات پر بھی اثر انداز ہو رہا تھا۔ ۔ میرے محسوسات تبدیل ہو رہے تھے۔
> کوئی شفقت اور رحمت تھی جو مجھے اپنے آغوش میں لے رہی تھی۔ مجھے اپنا دِل کسی
> نادیدہ غم سے بھرتا ہوا محسوس ہوا اور میں نے بلا سبب رونا شروع کردیا۔ حتٰی کہ
> آنسوؤں نے میرے چہرے پر بہنا بھی شروع کر دیا تھا، غم گویا بڑھتے ہی جا رہے
> تھے۔ اور جسقدر میرا رونا زیادہ ہو رہا تھا اُسقدر مجھے یوں لگ رہا تھا کہ کوئی
> قوت مجھے شفقت اور محبت کے ساتھ اپنی آغوش میں لئے بھینچ رہی ہے۔ ایسا نہیں تھا
> کہ میں اپنے گناہوں کے بوجھ اور پشیمانوں کی وجہ سے رو رہا تھا، حالانکہ ہونا
> تو ایسے ہی چاہیئے تھا، مگر یہ تو کوئی اور ہی احساس تھا۔ میرے اندر ایک دیوار
> سی تعمیر ہو رہی تھی جو مجھے میرے غرور اور غصہ آور سابقہ حیثیت سے علٰیحدہ کر
> رہی تھی۔
> اور آج جب میں یہ کہانی لکھ رہا ہوں مجھے یہ کہنے میں کوئی شرم نہیں آ رہی کہ
> اگر اللہ کی رحمت شامل حال نہ ہوتی تو مجھے گناہوں سے توبہ اور مغفرت کی سبیل
> تو دور کی بات ہے رحمت و عاطفیت کی آغوش میں پناہ کا راستہ بھی نہ ملتا۔
> اِسی طرح دو زانو بیٹھے ، کمر کو جھکائے اور سر کو کو دونوں ہاتھوں میں تھامے
> نجانے کتنی دیر بیٹھا رہا اور جب رونے سے ہٹا تو بہت تھکن سی محسوس کر رہا تھا۔
> میں ایک ایسے تجربے سے ہو کر گزرا تھا جو میرے لئے غیر مانوس تو تھا ہی مگر
> اِسکی کوئی عقلی دلیل بھی تو موجود نہیں تھی۔ اور میں یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ
> اِس عجیب و غریب تجربے کو کسی سے بیان بھی نہیں کر سکوں گا۔ مگر ایک بات ضرور
> ہوئی تھی اور وہ یہ کہ مجھے اُس وقت تک اِس بات کا احساس ہو چکا تھا کہ میں
> اللہ کی طرف رجوع کرنے کا محتاج ہوں اور نماز میری ضرورت ہے۔ اِس سے پہلے کہ
> میں اپنی جگہ چھوڑتا میں نے اپنے ہاتھ اُٹھاتے ہوئے یہ آخری دعا مانگی:
> اے میرے اللہ: اگر میں راہِ کُفر پر دوبارہ چلنے کا اِرادہ بھی کروں تو مجھے
> اُس سے پہلے ہی موت دیکر اِس زندگی سے ہی چھٹکارہ دیدینا۔ اب میرے لئے اپنے
> ظاہری اور باطنی عیبوں کے ساتھ زندہ رہنا تو محال ہے ہی، مگر تیرے تیرے وجود کا
> ایک دن بھی منکر بن کر رہوں یہ ہرگز قبول نہیں۔** *
>
>
> Phr Yaad-e-Khuda Se Ghafil Iss Duniya Ki Hawass Mein
>
> Iss Mukhtasir Si Zindgi Ka Ik Aor Din Beet Gaya...!!!
>
>
> --
>
> **
>
> **
>
> **
>
> **
>
> * VIRTUAL UNIVERSITY STUDY GROUPS
>
> *
> * *************** CoooL Vu Students******** *
> * *visit this group
> <https://groups.google.com/group/coool_vu_students?hl=en> *
> ** join this group
> <https://groups.google.com/group/coool_vu_students/subscribe?hl=en¬e=1&pli=1>**
> ** *
> *
> *
> * * ************** Vuhelp4u *************** * * * *
> * visit this group
> <http://groups.google.com/group/vuhelp_pk?hl=en> join
> this group
> <http://groups.google.com/group/vuhelp_pk/subscribe?hl=en¬e=1>
> ** ** *
> **
> *
>
> *
> **
> *
> ISLAMIC INFORMATIVE DISCUSSION GROUP*
> *
> ********* Islamic Wisdom *********
> *
> * visit this group
> <http://groups.google.com/group/Islamic-wisdom?hl=en>
> join this group
> <http://groups.google.com/group/Islamic-wisdom/subscribe?hl=en%3Fhl%3Den¬e=1>
> *
>
>
> Phr Yaad-e-Khuda Se Ghafil Iss Duniya Ki Hawass Mein
>
> Iss Mukhtasir Si Zindgi Ka Ik Aor Din Beet Gaya...!!!
>
> --
> Virtual University of Pakistan*** IT n CS Blog
> ================================
> http://www.enoxel.tk
>
> http://itncs.tk
>
>
> You received this message because you are subscribed to the Google
> Groups "vulms" group.
> To post to this group, send email to vulmsit@googlegroups.com
> To unsubscribe from this group, send email to
> vulmsit+unsubscribe@googlegroups.com
> For more options, visit this group at
> http://groups.google.com/group/vulmsit?hl=en?hl=en
>
--
Virtual University of Pakistan*** IT n CS Blog
================================
http://www.enoxel.tk
http://itncs.tk
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "vulms" group.
To post to this group, send email to vulmsit@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
vulmsit+unsubscribe@googlegroups.com
For more options, visit this group at
http://groups.google.com/group/vulmsit?hl=en?hl=en
No comments:
Post a Comment